وہ 12 چیزیں جو تیزی سے دنیا کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہیں

سائنس کی ترقی اور جدت نے جہاں زندگی کو پرآسائش اور قابل رشک بنادیا ہے وہیں ایٹم بم، میزائل اور دیگر جدید ترین اسلحہ بنا کر اس کی تباہی کا سامان بھی فراہم کیا ہے اسی لیے ایک جدید تحقیق کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ 12 ایسی چیزیں ہیں جو تیزی سے دنیا کو تباہی کی طرف لے جارہی ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے تھنک ٹینک فیوچر آف ہیومینیٹی انسٹی ٹیوٹ نے دنیا کی ممکنہ تباہی سے متعلق کئی سال کی تحقیق کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اس تباہی کا ذمہ دار خود انسان ہوگا اور اس میں 12 چیزیں اہم کردار ادا کریں گی۔

World_iM

ایٹمی جنگ:

ماہرین کا کہنا ہے اگرچہ دنیا کی سپر پاور کے درمیان سرد جنگ اختتام پذیر ہوگئی ہے لیکن ان کے درمیان جدید اور تباہ کن اسلحہ جمع کرنے کئے دوڑ جاری ہے۔ امریکا اور روس سمیت کئی بڑی طاقتیں ایٹمی اسلحہ سے لیس بین البراعظمی میزائل جمع کر رہے ہیں جو اس بات کا اشارہ ہے کہ دنیا ایک بڑی ایٹمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔

مصنوعی ذہانت:

مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلی جنس ایک ایسا مسئلہ ہے جو اس وقت سائنس دانوں کے لیے لمحہ فکریہ بن گیا ہے کیونکہ ایک بڑے برطانوی سائنس دان پروفیسر اسٹیفن ہاکینگ خبردار کر چکے ہیں کہ اگر روبوٹ اسی طرح تیزی سےترقی کرتے ہوئے انسانی عقل جیسی ذہانت حاصل کر لیں گے تو انسان کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے اور اس سے دنیا پر روبوٹ کی حکمرانی قائم ہوجائے گی جس کا حتمی نتیجہ دنیا کی تباہی کی صورت ہوسکتا ہے۔

بڑے شہاب ثاقب کا زمین پر گرنا:

جب امریکی ایوان نمائندگان نے ناسا سے پوچھا کہ جو بڑے بڑے شہاب ثاقب زمین کی طرف بڑھ رہے ہیں اس کا توڑ کیا ہے تو ناسا کے سربراہ چارلس بوڈن کا جواب تھا کہ ’دعا‘۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ یہ شہاب ثاقب زمین پر بڑی تباہی مچا سکتے ہیں۔

بڑے آتش فشاں:

دنیا بھر میں پھٹنے والے بڑے آتش فشاں تیزی سے دنیا کے درجہ حرارت کو بڑھا رہے ہیں اور اس بات کی پیش گوئی ہے کہ اس سے بھی بڑے آتش فشاں پھٹنے کو ہیں جو نہ صرف تباہی مچائیں گے بلکہ درجہ حرارت میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔

مصنوعی تخلیق کا وجود:

آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر جولین سلویسکو کا کہنا ہے کہ کلوننگ کے ذریعے مصنوعی زندگی کو وجود میں لاتے ہی انسانی زندگی کی تاریخ میں ایک انقلاب برپا ہوگیا ہے جس سے مستقبل میں ایسے بائیولوجیکل ہتھیار بنائے جا سکتے ہیں جس سے انسان تو ختم ہوجائیں گے لیکن تباہی نہیں ہوگی۔

قاتل جرثوموں کی پیدائش:

دنیا بھر میں کئی ایسی بیماریاں جنم لے رہی ہیں جو لمحوں میں لاکھوں انسانوں کو موت کی گھاٹ اتار سکتی ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایبولا، سارس اور سوائن فلو جیسے وائرس سے پیدا ہونے والی بیماریاں انسانی تباہی کا باعث بن سکتی ہیں۔ پہلی جنگی عظیم کی فوری بعد انفلوئنزا نے دنیا بھر میں 5 کروڑ لوگوں کو شکار کر لیا تھا اور مستقبل میں یہ بیماریاں زیادہ طاقت سے حملہ آور ہوسکتی ہیں۔

ماحول کی تباہی:

فیکٹریوں اور صنعتوں سےنکلنے والے زہریلا دھواں اور فضلا ماحول کو تیزی سے تباہ کر رہا ہے جو نہ صرف آبی حیات کو تباہ کر رہا ہے بلکہ اس سے دنیا کا درجہ حرارت بھی تیزی بڑھ رہا ہے جو گلیشیئر کو پگھلا کر سمندروں کی سطح میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔

نینو ٹیکنالوجی:

مالیکول اور ایٹم پر تحقیق کے بعد ایسی مشینیں تیار کرلی گئی ہیں جو انسانی جسم میں داخل کر کے انسان کے اندر ہونے والی زندگی کی ساخت کو سامنے لا رہی ہیں جس سے انسان کے دماغ کو کنٹرول کرنے پر کام کیا جارہا ہے اگر ایسا ہوگیا تو مستقبل میں اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔

دنیا کا نظام تباہی کے دہانے پر:

عالمی طاقتیں اپنے مفادات کی خاطر دنیا کے نظام کو تباہ کر رہی ہیں جس سے بڑی جنگیں چھڑنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

تباہ ہوتا حکومتی نظام:

اسی طرح دنیا کے اکثر ممالک میں عوام اپنی حکومتوں کے رویوں سے باغی ہورہے ہیں جو بدامنی پیدا کر رہا ہے۔

آب وہوا میں تبدیلی:

درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ اور ماحول میں زہر آلودہ اجزا کے اضافے نے دنیا کو خطرناک جگہ بنا دیا ہے جس سے ایسی بیماریاں جنم لے رہی ہیں جو انسانوں کی ہلاکت کا باعث بن رہی ہے۔

نامعلوم خطرات:

دنیا ایسے خطروں کی طرف بڑھ رہی ہے جو نظر تو نہیں آرہے لیکن جلد ایک بڑی مصیبت بن کر دنیا کے سامنے کھڑے ہوں گے۔

COMMENTS

Leave a Comment