آج کل وزن گھٹانے کا رواج وبا کی طرح پھیل گیا ہے۔ کیا مرد اور کیا خواتین سبھی کو دبلا ہونے کی فکر ہے۔ اس سلسلے میں طرح طرح کے غذائی مرکبات، ادویات اور ورزشوں کے نت نئے طریقے رواج پا رہے ہیں۔ دبلے پن کے لیے تجویز کی جانے والی غذا کے بارے میں پورے وثوق سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ وزن گھٹانے کا فوری، شرطیہ، یقینی اور بے ضرر ذریعہ ہے…
افسوس! کہ ایسے تمام طریقے طبی سائنس کی کسوٹی پر پورے نہیں اترتے۔
آئیے، اس بارے میں ہارورڈ یونیورسٹی امریکا کے پروفیسر مسٹر فریڈرک جے سٹیر کے خیالات سنئے۔
پروفیسر موصوف نے غذائی تحقیقات پر سالہا سال صرف کرکے اہم نتائج اخذ کیے ہیں جو افادہ عام کے لیے پیش ہیں۔ وہ غذائی ماہرین کے بورڈ کے چیئرمین ہیں اور غذا کے ذریعے عمدہ صحت اور مناسب وزن برقرار رکھنے کے گر اچھی طرح جانتے ہیں۔ دیکھیے، وہ عمدہ صحت، مناسب وزن اور متوازن خوراک کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ فالتو وزن گھٹانے کے لیے ہر معالج اپنا طریقہ پیش کرتا ہے اور غذائی تناسب کا اپنا اشاریہ سامنے رکھ دیتا ہے۔ یہ طریقے اور یہ غذائی اشاریے اتنے رنگارنگ اور اس قدر متنوع ہیں کہ بسا اوقات آدمی چکرا جاتا ہے اور یہ سوچنے لگتا ہے کہ وہ اپنے لیے صحیح معنوں میں مناسب اور مطلوب خوراک کا تعین کیسے کرے؟ پروفیسر ریڈرک کہتے ہیں کہ یہ الجھن والی بات ہے۔ بس صحیح طریقہ اختیار کرلیجئے جو یہ ہے:
’’اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ عمدہ صحت اور مناسب وزن برقرار رکھنے کا اصلی گر خود آپ کی شخصیت میں چھپا ہوا ہے۔ اصل اہمیت غذا کی نہیں ہے، یہ ثانوی درجے کی چیز ہے۔ سب سے پہلے آپ بے کم و کاست اپنا جائزہ لیں، اچھی طرح اپنی جانچ پڑتال کریں پھر اپنی غذا کا تعین کریں کہ آپ کے لیے کون سی غذا کتنی مقدار میں مناسب اور مفید ہے۔‘‘
پروفیسر موصوف کہتے ہیں کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ معمول کی پرسکون زندگی بسر کریں۔ اس کے بعد آپ کے دست و بازو میں یہ صلاحیت ضرور ہونی چاہیے کہ آپ اپنا وزن کسی دوا دارو کے بغیر خود گھٹالیں۔ آپ شوق سے من بھاتی غذا کھائیے لیکن یہ ضرور جان لیجئے کہ جو کچھ آپ کھا رہے ہیں، کیا وہ آپ کی مطلوبہ غذائی ضرورت کی تکمیل کے لیے کافی ہے؟ جو کچھ آپ کھائیں اس میں وہ تمام عناصر موجود ہونے چاہئیں جو آپ کی جسمانی توانائی کے لیے شرط لازم ہیں۔
پروفیسر فریڈرک کہتے ہیں کہ آپ اپنا جائزہ لینے کے لیے سب سے پہلے مندرجہ ذیل سوالوں کا جواب دیجئے۔
1- میں کس قسم کا انسان ہوں؟
2- مجھے کس قسم کی غذائیں بھاتی ہیں؟
3- میں کس قسم کی زندگی بسر کرتا ہوں؟
’’میں کس قسم کا انسان ہوں؟‘‘ اس سوال کے سلسلے میں پروفیسر صاحب مندرجہ ذیل ضمنی سوالات پوچھتے ہیں۔
(1) کیا آپ پر عزم انسان ہیں؟
(2) کیا آپ نظم و ضبط کے پابند ہیں؟
موصوف کا اگلا سوال یہ ہے ’’کیا آپ وقت بے وقت چپکے سے کیک کھسکا کر کھاجاتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ان اوقات کا تعین کیجئے جب آپ کو اناپ شناپ کھانے کی خوب طلب ہوتی ہے۔ اگلے سوالات یہ ہیںکہ جب آپ تنہا ہوتے ہیں تو کیا ایک ہی قسم کا کھانا کھاتے ہیں یا جب دوستوں کے ساتھ ہوتے ہیں تو مارے باندھے ایک ہی کھانا کھانے تک محدود رہتے ہیں؟ جب آپ کوئی کتاب پڑھتے یا ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں تو کیا اس دوران کھانے کی کوئی چیز چباتے رہتے ہیں؟ جب آپ سونے کی تیاری کرتے ہیں، تو کیا اس وقت بھی کوئی چھوٹی موٹی چیز کھاتے ہیں؟
جب آپ کو ان سوالات کے جواب مل جائیں تو ایک چارٹ پر لکھیے کہ آپ کتنا وزن گھٹانا چاہتے ہیں؟ اس ضمن میں آپ حقیقت پسندی سے کام لیجئے اور خوب سمجھ لیجئے کہ دنیا کی کوئی قوت آپ کو دراز قد اور دبلا پتلا نہیں بناسکتی۔ آپ کی کامیابی صرف یہی ہوسکتی ہے کہ آپ اپنے وجود کو اپنے قد کاٹھ کی مناسبت سے پرکشش بنالیں۔
اب اس سوال کی طرف آئیے کہ آپ کس قسم کی غذائیں پسند کرتے ہیں؟ اپنی پسندیدہ غذاؤں کو چار عنوانات میں تقسیم کیجئے۔
(1) گوشت، مچھلی، مرغی اور انڈے وغیرہ، (2) دودھ پر مبنی غذائیں، (3) پھل اور سبزیاں (4) آلو، غلوں پر مبنی غذائیں اور آٹے کی بنی ہوئی خوردنی اشیاء۔
غذائی ماہرین کہتے ہیں کہ یہ چاروں نوعیت کی غذائیں صحت مند رہنے کے لیے بہت ضروری ہیں۔ ہمیں روزانہ تھوڑا سا گوشت، مچھلی، یا مرغی، تھوڑے سے پھل اور سبزیاں، تھوڑی سی دودھ سے بنی غذائیں مثلاً پنیر مکھن وغیرہ اور تھوڑی سی غلے پر مبنی خوراک مثلاً روٹی، کیک اور سویاں ضرور کھانی چاہئیں۔
آپ ان چاروں نوعیت کے گروپوں کی غذاؤں میں سے اپنی پسند کی غذائیں منتخب کرلیجئے اوران کی فہرست بنائیے۔ اب جائزہ لیجئے کہ آپ کی من بھاتی غذائیں کہیں اتنی زیادہ توانائی کی حامل تو نہیں کہ وہ موٹاپے کا سامان بن جائیں۔ اگر ایسا ہے تو اپنی غذائی فہرست پر نظرثانی کیجئے اور اپنی پسند کی ایسی متبادل غذائیںکھائیے جو کم غذائیت کی حامل ہوں اور مٹاپے کا سبب نہ بنیں۔
اب آپ یہ جائزہ لیجئے کہ آپ کس قسم کی زندگی بسر کررہے ہیں؟ آپ کی سرگرمیاں کیا ہیں؟ چھٹی کے دن آپ کیا کرتے ہیں؟ جب آپ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کے سلسلے میں گھر سے روانہ ہوتے ہیں تو کیا کھاکر چلتے ہیں؟
گزشتہ چند دنوں پر نظر ڈالئے اور فہرست بنائیے کہ پچھلے چند دنوں میں آپ کیا کھاتے اور کیا پیتے رہے؟ مثلاً یہ کہ کیا آپ روزانہ صبح کافی پینے کے عادی ہیں؟ کیا آپ ضیافتوں میں شریک ہوتے ہیں؟ اگر شریک ہوتے ہیں تو پھر آپ نے گزشتہ چند دنوں کی ضیافتوں میں کیا کچھ نوش جان کیا؟
آپ کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ آپ کی روزمرہ مصروفیات سے آپ کی غذائی رجحانات کا گہرا تعلق ہے۔ اگر آپ نے اتنی خوراک کھالی ہے کہ آپ کے بدن میں وافر مقدار میں حرارے جمع ہوگئے ہیں یعنی آپ اپنی روزمرہ سرگرمیوں کے ذریعے جس قدر حرارے خرچ کرتے ہیں ان کے مقابلے میں آپ کے جسم میں حراروں کا ذخیرہ زیادہ ہوگیا ہے تو سمجھ لیجئے کہ آپ کے مٹاپے کی بنیاد پڑگئی… اس کے برعکس اگر آپ نے اپنی سرگرمیوں میں زیادہ خرچ کیے اور ان کی نسبت کم حراروں پر مبنی خوراک کھائی تو یہ گویا آپ کے وزن گھٹنے کا آغاز ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ آپ کے بدن میں فالتو حراروں کا جو ذخیرہ موجود ہے اب اس کے خاتمے کا آغاز ہوگیا ہے… وزن گھٹانے کا صحیح اور قدرتی طریقہ یہی ہے۔
ہماری خواتین کو روزانہ دو ہزار سے بائیس سو تک حرارے اور مردوں کو روزانہ بائیس سو سے چھبیس سو تک حرارے درکار ہوتے ہیں۔ اگر ایک شخص دھیرے دھیرے اپنا وزن کم کرنا چاہتا ہے تو اسے ایسی غذا کھانی چاہیے جس سے حاصل شدہ حرارے 1400 سے زیادہ نہ ہوں، اب آپ اپنے لیے مناسب لائحہ عمل خود ہی تجویز کرلیجئے۔
اگر آپ کا وزن زیادہ ہے اور آپ اسے رفتہ رفتہ کم کرنا چاہتے ہیں تو پھر اسی مناسبت کا غذائی پروگرام بناکر اس پر عمل کیجئے۔ مطلب یہ کہ خرچ ہونے والے حرارے ان حراروں کی نسبت لازماً زیادہ ہونے چاہئیں جو آپ کی خوراک کے ذریعے آپ کے وجود میں پہنچ چکے ہیں۔ اگر آپ کی خواہش ہے کہ آپ کا وزن تیزی سے کم ہو تو پھر آپ کو مستقل مزاجی سے کام لینا ہوگا کیونکہ اس مقصد کے لیے آپ کو خاصے کم حراروں والی معمولی سی خوراک پر اکتفا کرنا پڑے گا۔
غذائی خواص اور ان کے حرارے بتانے والے چھوٹے چارٹ بازار میں عام مل جاتے ہیں۔ یہ چارٹ خرید لیجئے اور ان کا اچھی طرح مطالعہ کیجئے تاکہ آپ تمام غذائی اجناس کے خواص اور ان کے حراروں کی تعداد جان جائیں۔
پروفیسر فریڈرک نے وزن گھٹانے کی دلچسپ ترکیبیں بھی بتائی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آدمی عادت کا غلام ہے۔ اگر آپ کو اناپ شناپ کھانے کی عادت ہے تو شوق سے یہ عادت قائم رکھیے لیکن جو کچھ آپ کھاتے ہیں اس میں نمک نہ ڈالیے۔ یوں آپ کو کھانا پھیکا اور بے مزہ لگے گا اور آپ خود بخود کھانا کم کھائیں گے۔ اس کا خوشگوار نتیجہ برآمد ہوگا یعنی آپ کا وزن نہیں بڑھے گا۔
وزن گھٹانے کی ایک اور دلچسپ ترکیب یہ ہے کہ اکیلے مت کھائیے، کسی کے ساتھ مل کر کھائیے کیونکہ کوئی آپ کے پاس بیٹھا ہوگا تو آپ اس سے باتیں بھی کریں گے۔ باتیں کھانے کی طرف سے جزوی طور پر توجہ ہٹا دیتی ہیں۔ نتیجتاً آپ کم کھائیں گے اور کم کھانا وزن گھٹانے کا عمدہ طریقہ ہے۔
کھانا تھوڑا کھائیے، آہستہ آہستہ کھائیے اور غذا چبانے کے عمل کو کچھ طول دے دیجئے۔ کھانا چھوٹی چھوٹی پلیٹوں پر سجا کر کھائیے۔ چھوٹی پلیٹوں پر تھوڑا سا کھانا بھی زیادہ لگے گا مگر آپ حقیقتاً کم کھائیں گے، یوں وزن میں اضافے سے محفوظ رہیں گے۔
موصوف کہتے ہیں کہ جب آدمی بیزار ہوتا ہے تو زیادہ خوراک کھاتا ہے۔ اس لیے بیزاری سے بچئے۔ خوش رہنا ہماری طبعی ضرورت ہی نہیں طبی تقاضا بھی ہے۔ بروقت کھانا کھائیے اور ساتھ ساتھ کوئی ایسا عمل بھی کیجئے جس سے آپ کی مصروفیت کچھ بٹ جائے۔ یہ کم کھانے کا ایک ٹوٹکا ہے۔ پروفیسر صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ کبھی کبھی آپ کھانے کے اوقات میں باغبانی کا شغل بھی فرمالیا کریں یوں ہاتھ مٹی سے آلودہ ہوجائیں گے اور آپ کھانے کی طرف متوجہ نہیں ہوسکیں گے۔