یہ جولائی 2007ء کی بات ہے۔ لاہور کا ایک خوبرو نوجوان شہزاد ملک کے ایک مشہور و معروف قومی اخبار کا مطالعہ کر رہا تھا۔ اخبار کے ورق الٹتے ہوئے اچانک اس کی نظر کلاسیفائیڈ اشتہارات پر پڑی۔ پھر ان میں سے ایک اشتہار پر اس کی نگاہیں گڑ کر رہ گئیں:”دوستیاں کیجئے۔۔۔۔کامیاب بنیے” اشتہار میں بتایا گیا تھا کہ ہر نوجوان دیے گئے رابطہ نمبروں پر کال کر کے نئے دوست تلاش کر سکتا ہے۔جو لڑکے بھی ہوسکتے ہیں اور لڑکیاں بھی۔۔۔۔۔ یہ نئے تعلقات اس کی زندگی میں نئی جان ڈال دیںگے۔
شہزاد ان دنوں ویسے بھی فارغ تھا۔اس کی زندگی بے مزہ گزر رہی تھی۔ایسے اشتہارات اس نے پہلے بھی دیکھے تھے مگر اب اس نے پہلی بار انہیں آزمانے کا ارادہ کیا۔اس نے اشتہار میں دیے گئے نمبروں پر رابطہ کیا۔اس رابطے کے نتیجے میں اسے کئی لڑکوں اور لڑکیوں کا تعارف کرایا گیا۔ ان کے فون نمبرز دیے گئے۔ شہزاد نے ان میں سے ایک لڑکی”روحی”کو دوستی کے لیے منتخب کیا اور اس کے نمبر پر کال کی۔دونوں میں ہیلو ہائے ہوئی۔ پھر باقاعدہ ملاقات کے لیے جگہ کا تعین ہوا۔لڑکی نے خود بتایا کہ وہ لاہور کے فلاں جوس سینٹر میں مل سکتی ہے۔
شہزاد وہاں پہنچ گیا۔ اس طرح روحی سے اس کی پہلی ملاقات ہوئی۔اس ملاقات نے اسے ایک نئی دنیا کی سیر کرائی۔ عیش و عیاشی کی دنیا ، رنگ رلیوں کی دنیا ، جہاں شرم و حیا نامی کوئی شے نہیں ہوتی۔روحی اس دنیا میں داخلے کا دروازہ تھی۔ آگے لڑکیوں کی ایک لمبی قطار تھی۔ شہزاد کی دوستیاں بڑھتی چلی گئیں۔ اسے ہوش تب آیا جب اسے جسم میں شدید توڑ پھوڑ کا احساس ہوا۔ اس نے ڈاکٹروں سے معائنہ کروایا تو پتا چلا کہ وہ ایڈز کا مریض بن چکا ہے۔ شہزاد کے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ وہ اپنا علاج کراتا۔ تب انہیں گروہ کے سرکردہ افراد نے علاج کی پیش کش کی مگر شرط یہ تھی کہ وہ ان کے گروہ کے لیے کام کرے۔ شہزاد کو موت سامنے نظر آرہی تھی۔ وہ ہر خطرناک سے خطرناک اور ناجائز سے ناجائز کام کے لیے تیار ہوگیا۔ ویسے بھی حلال و حرام کا فرق تو وہ کب کا بھول چکا تھا۔ گروہ کے منتظمین خود سات پردوں میں تھے۔ وہ شہزاد کو اپنی لڑکیوں کے ذریعے مختلف کام بتاتے تھے۔ یہ کام عجیب و غریب تھے۔ شہزاد ایک پڑھا لکھا اور ذہین نوجوان تھا۔جلد ہی وہ گروہ کے کاموں کو خاصی حد تک سمجھ گیا۔ گروہ کے منصوبے آہستہ آہستہ اس پر عیاں ہونے لگے۔ یہ منصوبے بے حد خوفناک تھے۔ یہ گروہ ملک میں ایڈز کا وائرس پھیلا رہا تھا۔ ہیپاٹائٹس سی کی بیماری کو فروغ دے رہا تھا۔ ہزاروں افراد اس کا نشانہ بن چکے تھے۔ آزاد خیال نوجوان ، ہسپتالوں کے مریض اور جیلوں کے قیدی اس کا خاص ہدف تھے۔ آزاد خیال نوجوانوں کو دوستی کے اشتہارات کے ذریعے پھنسایا جاتا تھا۔ یہ اشتہارات میڈیا میں مختلف عنوانات سے آرہے تھے۔ ان کے ذریعے نوجوانوں کا تعلق جن لڑکیوں سے ہوتا تھا وہ ایڈز اور دوسری مہلک بیماری میں مبتلا تھیں۔ ان سراپا بیمار عورتوں کو مختلف این جی اوز سے اکٹھا کیا گیا تھا۔ ان عورتوں کی بیماری اس درجے کی تھی کہ ان کے ساتھ اختلاط سے بھی انسان ایڈز میں مبتلا ہو سکتا تھا، مگر گروہ کے لوگ اس پر اکتفا نہیں کرتے تھے۔ان کا انتظام اتنا پختہ تھا کہ لڑکی سے پہلی ملاقات کے وقت نوجوان جو مشروب (جوس، کولڈ ڈرنک یا شراب) پیتا تھا، اس میں پہلے سے خطرناک جراثیم ملا دیے جاتے تھے۔ ایڈز کی کئی مریضائیں معقول علاج ، بہتر معاوضے اور عیش و عشرت کی چند گھڑیوں کے عوض اس گروہ کے لیے یہ کام کرتی تھیں ، جبکہ بہت سی عورتیں مجبور ہو کر یہ کام کر رہی تھیں کیونکہ ان کے بچے اس گروہ کے قبضے میں تھے۔ ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر وہ احکام کی تعمیل کرتی رہیں، ایڈز پھیلاتی رہیں تو ان کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوا کر ان کا مستقبل شاندار بنا دیا جائے گا۔
ان بے فکرے نوجوانوں کے علاوہ ہسپتالوں ، پاگل خانوں اور جیل خانوں کے مریض ان کا دوسرا ہدف تھے۔ یہ گروہ پاکستان کے طول و عرض میں ایسی لاکھوں سرنجیں پھیلا رہا تھا جو ایڈز یا ہیپاٹائٹس سی کے مریضوں کے خون سے آلودہ ہوتی تھیں۔ کئی بڑے ہسپتالوں میں اس گروہ کے ایجنٹ موجود تھے۔ وہاں آنے والی سرنجوں میں یہ ایڈز اور ہیپا ٹائٹس زدہ سرنجیں ایک مخصوص تناسب سے ملی ہوتی تھیں۔ اتنی سرنجوں کو آلودہ کرنے کے لیے گروہ نے پاگل خانوں میں سرگرم اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاگل افراد کو اپنا نشانہ بنایا ہوا تھا۔ ان کو ایڈز یا ہیپاٹائٹس سی میں مبتلا کرنے کے بعد ان کا خون بڑی مقدار میں نکالتے رہنے کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔
گروہ کا تیسرا ہدف جیل کے قیدی تھے۔ ان میں سے کم مدت کی سزا پانے والے حد درجے منفی اور لادینی ذہنیت رکھنے والے قیدیوں کو خاص تجزیے کے بعد منتخب کرکے علاج کے بہانے ایڈز زدہ کر دیا جاتا تھا۔ جب یہ قیدی رہا ہوئے تو بیماری کے باعث ان کا کوئی مستقبل نہ ہوتا تھا۔یہ گروہ ان سے رابطہ کر کے انہیں اپنا رضاکار بنا لیتا تھا۔ یہ قیدی ویسے ہی تخریبی ذہن کے ہوتے تھے ۔ اپنی محرومیوں کا دنیا سے بدلہ لینے کےلیے وہ ایڈز پھیلانے پر آمادہ ہو جاتے تھے۔انہیں کانوں کان یہ معلوم نہ ہوتا تھا کہ انہیں ایڈز میں مبتلا کرنے والے “مہربان” یہی ہیں۔
گروہ کا ایک خاص کام دوسرے لوگوں کی اسناد کو اپنے کارکنوں کے لیے استعمال کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے اخبارات میں تبدیلی نام اور ولدیت کے اشتہارات شائع کردیے جاتے۔ گروہ کے کسی کارکن کو کسی ملازمت کے لیے جو مطلوبہ سند درکار ہوتی ، اس کا انتظام اس طرح ہوتا تھا کہ پہلے کمپیوٹر پر اپنے کارکن کی ولدیت سے ملتے جلتے نام والی ولدیت سرچ کی جاتی۔مثلاً: ظفر ولد جمیل کو کہیں بھرتی کرانا ہوتا تو نیٹ سے جمیل نام کی ولدیت رکھنے والے افراد کی فہرست حاصل کر لی جاتی۔پھر ظفر کا تبدیلئ نام کا اشتہار شائع کرا کے تبدیل کردیا جاتا۔اس طریقے سے گروہ کے ان گنت افراد کو ڈپلی کیٹ اسناد دلوا کر پولیس ، خفیہ ایجنسیوں اور فوج میں بھرتی کیا جا رہا تھا۔جیل خانوں ، ہسپتالوں اور پاگل خانوں میں بھی ان کی خاصی تعداد پہنچا دی گئی تھی۔
گروہ کی آمدن کے کئی ذرائع تھے۔ شہزاد کو اتنا معلوم ہوسکا کہ بڑی گرانٹ اسے باہر سے ملتی ہے۔ دیگر ذرائع خفیہ تھے۔ البتہ ایک ذریعہ آمدن بہت واضع تھا۔ وہ ایڈز اور دوسرے مہلک امراض کی ادویہ کی تجارت کا۔ ایک طرف تو خود یہ گروہ ان امراض کو پھیلا رہا تھا اور دوسری طرف ان کی ادویات منہ مانگے داموں فروخت کر کے بے تحاشہ دولت کما رہا تھا۔
ایک مدت تک شہزاد بھی اپنا دین و ایمان بھول کر اس گروہ کے لیے کام کرتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ ان کے قابل اعتماد کارکنوں میں شامل ہو گیا۔ تب ایک دن گروہ کے سرکردہ افراد نے اسے طلب کیا اور حیرت انگیز حد تک پرکشش مراعات کی پیش کش کی مگر ساتھ ہی ایک غیر متوقع مطالبہ بھی کیا۔
“تم قادیانی بن جاؤ۔ مرزا غلام احمد قادیانی کو آخری نبی مان لو “شہزاد ہکا بکا رہ گیا۔ آج اسے معلوم ہوا کہ یہ گروہ قادیانی ہے۔ اس نے سوچنے کی مہلت طلب کی اور اس کے بعد مزید کھوج میں لگ گیا۔ اس جستجو میں گروہ کی ایک پرانی کارکن”روبینہ”نے اس کی مدد کی۔ روبینہ نے جو انکشافات کیے وہ شہزاد کےلیے کسی ایٹمی دھماکے سے کم نہیں تھے۔ اس نے بتایا:”بلاشبہ یہ قادیانی گروہ ہے مگر اکیلا نہیں۔ یہ ایک بیرونی خفیہ ایجنسی کی سرپرستی میں کام کر رہا ہے۔ یہ کام ایک وسیع جنگ کے تناظر میں ہو رہا ہے۔ اسے ہم حیاتیاتی جنگ کہہ سکتے ہیں”
قارئین ! شہزاد کی یہ سچی کہانی پڑھ کر میں لرز گیا ہوں۔ میں اس پر یقین نہ کرتا شاید آپ بھی اسے سچ ماننے میں متذبذب ہوں۔ کیونکہ یہ بات حلق سے اُترنا واقعی مشکل ہے کہ آیا کوئی گروہ بلا تفریق لاکھوں کروڑوں پاکستانیوں کو اس طرح خفیہ انداز میں قتل کرنا کیوں چاہے گا؟امریکا کی جنگ تو مجاہدین سے ہے۔ قادیانیوں کی لڑائی تو علماء اور ختمِ نبوت والوں سے ہے۔ انہیں عوام کے اس قتلِ عام سے کیا حاصل ہوگا؟شہزاد کی کہانی میں اس کا جواب نہیں ملتا، مگر اس کا جواب خود یورپی میڈیا پر آنے والی رپورٹوں سے مل سکتا ہے۔ ان رپورٹوں کے مطابق اس وقت یورپ اور امریکا میں انسانی آبادی تیزی سے نمٹنے کا خطرہ واضح طور پر محسوس ہو رہا ہے۔ وہاں کے”فری سیکس”معاشرے میں اب کوئی عورت ماں بننا چاہتی ہے نہ کوئی مرد باپ۔ تقریباً ہر فرد کا یہ ذہن بن چکا ہے جب جنسی تسکین کے لیے آزاد راستے موجود ہیں تو شادی کا بندھن اور بچوں کا جھنجھٹ سر کیوں لیا جائے؟ اس بظاہر پُر فریب خیال کے پیچھے اجتماعی خود کشی کا طوفان چلا آرہا ہے۔ جس قوم کے اکثر لوگ بچے پیدا نہ کرنا چاہتے ہوں۔ وہاں شرح پیدائش کیوں کم نہ ہوگی؟چنانچہ وہاں اب آبادی تیزی سے نمٹنے لگی ہے۔سابق امریکی صدارتی اُمیدوار پیٹرک جے بچا چن نے واضح طور پر لکھا ہے:”2050ء تک یورپ سے دس کروڑ افراد صرف اس لیے کم ہوجائیں گے کہ متبادل نئی نسل پیدا نہیں ہوگی۔”اس نے لکھا ہے:”2050ء تک جرمنی کی آبادی8 کروڑ سے گھٹ کر 5 کروڑ 90 لاکھ رہ جائے گی۔ اٹلی کی آبادی 5کروڑ سے کم ہو کر صرف 4 کروڑ رہ جائے گی۔ اسپین کی آبادی میں 25 فیصد کمی ہو جائے گی۔”
یہ وہ صورتِ حال ہے جس سے گھبرا کر مغربی دنیا کی حکومتیں عوام کی افزائش نسل کی ترغیبات دینے پر مجبور ہو گئی ہیں مگر کتے بلیوں کی طرح آزادانہ جنسی ملاپ کے عادی گورے اب کسی بھی قیمت پر یہ آزادی کھونا نہیں چاہتے۔ کوئی بڑے سے بڑا انعام انہیں بچے پالنے کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں بنا سکتا۔ یہ بات درجہ یقین کو پہنچ گئی ہے کہ اس صورتِ حال کا تدارک نہ ہونے کے باعث 50، 60 سال بعد دنیا میں عیسائی اقلیت میں رہ جائیں گے اور کرۂ ارض پر 60 سے 65 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہوگی جو اپنی نسل مسلسل بڑھا رہے ہیں۔ خود یورپی ممالک میں کئی بڑے بڑے شہروں میں مسلم آبادی 50 فیصد کے لگ بھگ آجائے گی۔ اس صورتِ حال میں مغربی طاقتوں نے اپنے ہاں افزائش نسل سے زیادہ توجہ مسلم دنیا کی نسل کشی پر دینا شروع کر دی ہے۔ پاکستان کو اس مقصد کے لیے پہلا ہدف اس لیے بنایا گیا ہے کہ یہ مسلم دنیا میں آبادی کے لحاظ سے تین بڑے ملکوں میں سے ایک ہے۔ پھر یہاں کی آبادی اپنی اسلام پسندی ، علماء و مدارس کی کثرت اور جہادی پس منظر کی وجہ سے پہلے ہی مغرب کا خاص ہدف ہے۔ اس کے علاوہ یہاں مغرب کے مددگار قادیانیوں کا مضبوط نیٹ ورک ہے۔ چنانچہ یہودی لابی اس مقصد کے لیے متحرک ہوگئی ہے۔ اس کے لیے پاکستان کے قادیانی اس کے شریک کاربن گئے ہیں۔ شہزاد جیسے ہزاروں لڑکے اور روحی جیسی ہزاروں لڑکیاں ان کے چنگل میں ہیں۔ اپنے ایڈز زدہ جسموں کےساتھ وہ طوعاً و کرہاً ان کے لیےکام کر رہے ہیں۔
شہزاد کے بیان کے مطابق قادیانی گروہ ایک بیرونی خفیہ ایجنسی کے اس تعاون کو پاکستان کے سیکیورٹی اہداف کے خلاف بھی استعمال کر رہا ہے۔ جراثیم زدہ لڑکیوں کا نیٹ ورک ملٹری فورسز اور دوسرے خفیہ اداروں کے محب وطن افراد تک پھیلانے کی کوششیں پوری سرگرمی سے جاری ہیں۔جن کا نوٹس لینا ضروری ہے۔
مجھے یہ حساس ترین معلومات دیتے ہوئے شہزاد نے واضح طور پر آگاہ کیا کہ اسے اپنی جان کا خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ قادیانیوں نے اسے مرزا پر ایمان لانے کی پیشکش کر کے اس کی سوئی ہوئی ایمانی غیرت کو جھنجھوڑ دیا تھا۔ شہزاد نے ان کی پیش کش ان کے منہ پردے ماری اور اس گروہ کی جڑوں کو کھود کر ان کا کچا چٹھا صحافی برادری تک پہنچا دیا۔ شہزاد اپنا کام کرچکا ، اب اس کاجو بھی انجام ہو وہ بھگتنے کے لیے تیار ہے۔ میں اپنا فرض سمجھتے ہوئے یہ حقائق آپ تک پہنچا رہا ہوں۔
ہم چیف جسٹس ، چیف آف آرمی اسٹاف اور آئی ایس آئی کے سربراہ سے بطور خاص گزارش کرتے ہیں کہ اس بارے میں تحقیقات کرکے پاکستانیوں کی نسل کشی کے اس خوفناک منصوبے کو ناکام بنائیں۔ ورنہ مستقبل میں جہاں آبادی سے محروم یورپ و امریکا خودکشی کریں گے وہاں پاکستان بھی لق و دق صحرا بن کر اپنی پہچان سے محروم ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس برے وقت سے پہلے ہمیں سنبھلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آپ دوستو سے گزارش ہے کہ اخبارات اور چینلوں پر آنے والے دوستی کے اشتہارات پر نظر رکھیں اور ان کے خطرات سے اپنے متعلقہ احباب کو خبردار کریں۔”