کیا یہی ہمارا معیار ہے؟

334568-pic-1425709027-238-640x480

تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں آج تک کسی قوم نے علم کی طاقت کے بغیر ترقی نہیں کی، علم کی قوت ہی ساری دنیا کو سمرقند و بخارا اور کوفہ و بغداد کھینچ لائی تھی۔ یہ علم ہی تھا جس نے چین کے سفر کو رہبانیت سے زیادہ مقدس قرار دیا۔ علوم وفنون کی بنیاد پر آدھی دنیا پر حکومت کی گئی، اندلس کی پہاڑیاں جدیدعلوم کی روشنی کی بدولت دنیا کے افق پر چمکیں، علم نے ہی نیوٹن اور آئن اسٹائن کا نام رہتی دنیا تک امر کیا، سائنس اور ٹیکنالوجی نے ہی روس، چین، یورپ اور امریکہ کو سپر پاورز کی صف میں لا کھڑا کیا۔

جبکہ دوسری جانب طاؤس و رباب، بادہ و جام اور انسانی سروں کے مینار بنانے کے نشے میں چور ایک قوم نے اس سارے علم و حکمت کے انبار کوچند ساعتوں میں خاک میں ملا دیا، نایاب کتب کے ذخیروں کو دجلہ کی نذر کر دیاگیا۔ دجلہ کا شفاف پانی آب کی بجائے سراب کی شکل اختیار کرگیا اور آخر کارکتب کی سیاہی سے وہ اجلا نیلا پانی سیاہ ہوگیا۔ اس یلغار نے مدارس کو ویران کردیا، جن گلیوں میں گھوڑوں پر کتب لاد کر لائی جاتی تھیں وہی گلیاں انہیں کتب کے پھٹے اور گھوڑوں کی نعلوں کے نیچے روندے ہوئے اوراق سے بھری پڑی تھیں۔

پہلے زمانے میں علم پر حملہ آور ہونے کیلئے گھوڑوں کی پیٹھوں پر بیٹھا جاتا تھا اور آج کل ٹی وی اسٹوڈیوز میں بیٹھایا جاتا ہے۔ اقبالؔ نے کہا تھا ’طاؤس و رباب آخر‘ لیکن موجودہ میڈیا کی اکثریت نے اس مصرعے کو الٹا کردیا ہے یعنی طاؤس و رباب اول۔ اس کی ایک مثال لاہورکے پسماندہ خاندان سے تعلق رکھنے والی وہ دو خواتین ہیں جنہوں نے’ جسٹن بیبر‘ کا ایک گانا گایا اوردیکھتے ہی دیکھتے ان کی یہ وڈیو سوشل میڈیا پر پھیل گئی۔ ریٹنگز کا بھوکا میڈیا بھلا کیسے خاموش بیٹھتا؟ چند ہی دنوں میں ایک نجی ٹی وی چینل کے مارننگ شو میں وہ دونوں خواتین ایک نئے رنگ ڈھنگ میں سامنے آئیں اور انہوں نے وہی گانا جدید سازوانداز کے ساتھ دوبارہ گاکر شائقین کوخوب محظوظ کیا ۔

ہنس کی چال چلنے والا یہ کوّا، مطلب میڈیا، یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ دنیا کی ہر تہذیب نے کسی نہ کسی انداز میں موسیقی کو ضرور زندہ رکھا بلکہ اس میں بھی جدت کی نئی راہیں ایجاد کیں، لیکن ان کی پہلی ترجیح کبھی بھی ساز نہیں رہے بلکہ تعلیم و ترقی، سائنس و ٹیکنالوجی اور ذہنی و جسمانی کھیل ان کی ترجیحات میں شامل رہے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں سارا زور ساز پر بلکہ ’’ساز باز‘‘ پر ہے جس سے اصل ساز بھی محفوظ نہیں رہا۔

girls

جن دنوں لاہور کی ان دو خواتین کی وڈیو سوشل میڈیا پر گردش کررہی تھی، اُنہیں دنوں شمالی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے ایک بارہ تیرہ سال کے بچے کی وڈیو بھی منظرِ عام پر آئی، جس میں وہ طب کی مشکل اصطلاحات انتہائی مہارت سے انگریزی زبان میں سنا رہا ہے۔

وڈیو بنانے والے لڑکوں نے بہت سے سوالات بھی پوچھے جن کا وہ بڑی چابکدستی اور پُراعتماد انداز میں جواب دیتا رہا، لیکن میڈیا اپنی خر مستیوں میں مصروف رہا اور کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ لاہور کی ان دو خواتین کی طرح اس باصلاحیت بچے کو بھی کوئی اپنے مارننگ شو میں لے آتا اور اس کی حوصلہ افزائی کرتا، بلکہ اربوں کمانے والے میڈیا کیلئے کیا مشکل تھا کہ اس بچے کو اعلیٰ تعلیم کیلئے مدد فراہم کرتے اور ملکی ترقی میں اپنا حصہ بھی ڈال دیتے؟ لیکن بھینس کے نالے میں گرجانے کی خبر کو بریکنگ نیوز بنانے والا میڈیا ایسا کیوں کرے؟ اِسے تو بات بات پر اور سنجیدہ امور پر بھی ہندوستانی گانے خبر کے ساتھ چلانے سے فرصت نہیں، عوام کی آواز ہونے کا دعویٰ کرنے والا میڈیا عوام کو بھاڑ میں جھونک کر ’’ہارس ٹریڈنگ اور لوٹا کریسی‘‘ میں ملوث سیاستدانوں کی ’’کیٹ فائٹ‘‘ ہی دکھاتا رہتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ حکومتِ وقت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرح کے باصلاحیت بچوں کی صلاحیتوں کو ضائع نہ ہونے دیں اور انہیں ملکی ترقی کیلئے صحیح معنوں میں استعمال کریں۔

بقول اقبالؔ ؛ حقیقت خرافات میں کھو گئی، یہ اُمّت روایات میں کھو گئی!

Leave a Comment