عیدالاضحی کی آمد کے قبل ہی قربانی کے جانوروں کی منڈیا ں سج جاتی ہیں، دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ عموماً بچوں کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں اور خریداری کے لیئے بھی رات کا وقت منتخب کیا جاتا ہے، اس دوران منڈی میں موجود گردوغبار، گندگی، غلاظت، اطراف کا ماحول، رات کا وقت اور سب سے بڑھ کر جانوروں کی بیماریاں ان لوگوں پر مختلف انداز میں اثرانداز ہوجاتی ہیں،
عموماً منڈیو ں میں جو ٹھنڈے مشروبات اور کھانے پینے کی اشیاء کسی طور بھی حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق نہیں ہوتیں، جس سے لوگ عموماً نزلہ، زکام، قے ، دست اور تھکاوٹ جیسی بیماریوں کا شکار ہو سکتے ہیں،
گھاس پھونس خصوصاًخشک گھاس کے بنڈل میں تو بعض اوقات بچھو تک پائے جاتے ہیں، اس کے استعمال میں خاص احتیاط ضروری ہے،
عیدالاضحی پر ہمارے یہاں زیادہ تر تین قسم کے جانور ، بکرے، گائے یا پھر اونٹ منتخب کیئے جاتے ہیں ، جو عموماً پہاڑوں یاجنگلوں سے لائے جاتے ہیں اور واضح رہے اور ان جانوروں میں ایک خاص قسم کا پِسًو پایا جاتا ہے، جو جانوروں کے جسم سے چپکا ہوا ہوتا ہے، قربانی ہوتے ہی یہ اُڑ کر قریب موجود کسی بھی زندہ جسم کو کاٹ سکتا ہے، اس پِسو میں ایک خاص وائرس پایا جاتا ہے جو مذکورہ فرد کو ایک ایسی بیماری میں مبتلا کر دیتا ہے جس سے جسم میں خون جمنے کا نظام غیر موثر ہو جاتا ہے، جانور ذبح کرتے وقت خاص طور پر پوری آستین کی قمیض پہنی جائے اور بچوں کو خاص طور پر دور رکھا جائے،جسم کے کھلے ہوئے حصے خاص طور پر ڈھکے جائیں،
قربانی کا جانور ذبح ہوتے ہی خون صاف کرنے کے لیئے وہ جگہ پانی سے دھو دی جاتی ہے، اس طرح خون نالی میں بہنے سے تعفن پھیلتا ہے اور مکھیاں بھنبھناتی ہیں، ممکن ہو تو جس جگہ جانور کا خو ن بہا ہو وہاں چُونا چھڑک دیں اور جب خون جم جائے تو اُسے بیلچے کی مدد سے مٹی میں دفن کردیں اور کچھ دیر بعد سرف سے دھو لیں، اسطرح ایک تو جراثیم ختم ہونگے اور تعفن نہیں پھیلے گا اور زمین کو کھاد بھی میسر آئے گی،