بلاشبہ جانور چاہے بکرا، گائے یا اونٹ ہو، اُس کا گوشت ایک بہترین غذا ہے لیکن، جس طرح کسی بھی چیز کی زیادتی نقصان کا سبب بنتی ہے ، اُسی طرح کثرت سے گوشت کا استعمال بھی کئی عوارض کا سبب بن جاتا ہے۔
طبی نقطہ نگاہ سے قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
۱۔مغز، ۲۔ اعضاء کا گوشت، ۳۔ سُرخ گوشت
واضح رہے یہ تقسیم ان حصوں میں پائے جانے والے اجزاء کی بنیاد پر کی گئی ہے۔
مغز:
جانور کا مغز بنیادی طور پر چربی کا ماخذ ہے اور اس میں سب سے زیادہ کولیسٹرول پایا جاتا ہے، مغز کے استعمال میں خاص احتیاط برتی جائے کیونکہ جو افرادکولیسٹرول کی زیادتی کا شکار ہیں، مغز کھانے سے ان کے کولیسٹرول میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
اعضاء کا گوشت:
اعضاء کے گوشت میں دل، جگر، تلی اور گردہ شامل ہیں۔ تلی اور جگر میں خون کی وافر مقدار شامل رہتی ہے، اسکے علاوہ جگر مختلف وٹامنز کا بھی ذریعہ ہے، جگر اور تلی میں فولاد بھی وافر پایا جاتا ہے، اس کے علاوہ دل، جگر، تلی اور گردہ میں کولیسٹرول اور پروٹین کی بھی مقدار شامل ہوتی ہے، لہذا یہ گوشت معمولی مقدار میں کھائیں، کیونکہ اس کے ہضم ہونے میں معدے کو کافی وقت درکار ہوتا ہے، تیزاب کی بھی زائد مقدار درکار رہتی ہے، اس لیئے اس کا زیادہ استعمال سینے میں جلن، تیزابیت اور پیٹ درد میں مبتلا کر سکتا ہے۔دل، جگر، تلی اور گردہ کے گوشت کو ہضم کرنے کے لیئے جگر، پِتے اور لبلبے کو بھی زائد کام کرنا پڑتا ہے، اگر کو ئی فرد ان تکالیف کا شکار ہو تو ان چیزوں کا استعمال ان کی تکالیف میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے اور بعد میں معدے کے درد میں معمولی سے درد کی شکایت کرنے والے السر تک کا شکار ہو سکتے ہیں ، نیز ہمارے یہ تین اعضاء یعنی جگر، پتہ اور لبلبے اگر ایک بار کسی تکلیف کی زد میں آجائیں تو مہینوں تک متاثر رہتے ہیں، دوسری جانب کولیسٹرول، ہائی بلڈ پریشر اور شوگر کے مریض بھی معمولی سی بد پرہیزی پر ڈاکٹروں اور اسپتالوں کے چکر لگانے پر مجبور ہو سکتے ہیں، اس کے علاوہ یورک ایسڈ کی بھی زیادتی ہو سکتی ہے جس سے جوڑوں کے درد اور گردے میں پتھری جیسی بیماریاں بھی ہوسکتی ہیں، اس لیئے طبی ماہرین اعضاء کے گوشت بہت مناسب مقدار ہی میں استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
سُرخ گوشت:
یاد رہے، ہمارا معدہ صرف درست طریقے سے پکا ہوا گوشت ہی ہضم کرسکتا ہے، کیونکہ گوشت میں پروٹین، فولاد اور کولیسٹرول کی زائد مقدار پائی جاتی ہے تواس سے وافر مقدار میں یورک ایسڈ بنتا ہے جو صحت کے لیئے سخت نقصان دہ ہے، گوشت کھانے کی صورت میں ہمارے دانتوں کو بھی اضافی مشقت کرنی پڑتی ہے، گوشت کے ریشے دانتوں میں پھنسنے سے مسوڑھے متورم ہوجاتے ہیں۔پھر جب گوشت معدے میں داخل ہوتا ہے تو اسے وہاں تیزاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، چونکہ یہاں گوشت کا قیام دیر تک رہتا ہے لہذا سینے میں جلن شروع ہوجاتی ہے، اور جب تک معدہ گرائنڈ کا عمل مکمل نہیں کرتا، تب تک اگلے مرحلے کا آغاز نہیں کرتا جس کے نتیجے میں کھٹی ڈکاریں اور پیٹ کے شدید درد جیسی تکالیف سر اُٹھانے لگتی ہیں،
اگلے مرحلے میں یعنی آنتوں میں داخل ہونے کے بعد ایک خودکار عمل کی بدولت چھوٹی آنت میں پرہٹین اور اس کے اجزاء جذب ہونا شروع ہوجاتے ہیں، ہمارا نظامِ انہضام ایک مخصوص مقدار ہی میں پروٹین جذب کرکے، اضافی مقدار بڑی آنت میں دھکیل دیتا ہے اور یہاں بھی گلنے سڑنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے، دراصل بڑی آنت صرف پانی اور نمکیات ہی جذب کرسکتی ہے اور گوشت میں سبزی اور اناج کی مانند ریشہ نہیں ہوتا، اسی لیئے قبض کی شکایت شدت اختیار کرلیتی ہے، جو افراد گوشت کا ضرورت سے زیادہ استعمال کرتے ہیں، وہ نا صرف قبض کا شکار رہتے ہیں بلکہ اُ ن میں کولیسٹرول، یورک ایسڈ اور فولاد کی مقدار بھی غیر ضروری بڑھ جاتی ہے۔ نیز بڑی آنت میں پروٹین کے گلنے سڑنے کے باعث ریاح بھی بے حد بدبو کے ساتھ خارج ہو تی ہے۔
مختصراً، صرف اتنی تاکید ہے کہ عید الاضحی پر کھائیں ضرور مگر اعتدال کے ساتھ، قربانی کے اصل مقصد، روح کو سمجھیں، محض پیٹ بھرنے کو ہی قربانی کا مطلب نہ جانے۔
شیئر کریں، اپنی اور اپنے سے مطلق لوگوں کا خیال رکھیں، عید تحفہ ہے اور اس تحفے کو انجوائے کریں ناکہ بیمار ہو کر خود کو اور دوسروں کو پریشان کریں، اپنا بہت خیال رکھیں کیونکہ صحت زندگی ہے اور جان ہے تو جہان ہے۔