فلم تفریح کا سب سے بہترین ذریعہ ہوتی ہیں لیکن فلمیں بنانا یقیناً تفریح کا کام نہیں۔ یہ ایک انتہائی مشکل، محنت اور وقت طلب کام ہے۔ اچھی سے اچھی فلم بھی مکمل ہونے میں 6 ماہ سے سال بھر کا ٹائم ضرور لیتی ہے۔
ایسے میں فلم کے حوالے سے تمام چیزوں کو مینٹین رکھنا بھی ایک مشکل مرحلہ ہے۔ ایک فلم کی تیاری میں کئی مراحل طے کرنے پڑتے ہیں۔ ان میں سب سے پہلا اور اہم کام اچھے اسکرپٹ یا کہانی کی تلاش ہوتا ہے۔ اس کے بعد ڈائریکٹر، ایکٹرز، لوکیشنز اور دیگر تمام امور کا انتخاب ایک فلم بنانے کے لیے ضروری ہو تا ہے۔ ہر فلم میکر اپنی فلم کو خوب سے خوب تر بنانے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ ساتھ ساتھ وہ آڈینس کے مزاج کو بھی سامنے رکھتا ہے۔ اس کی نظر اس بات پر بھی ہوتی ہے کہ رواں وقت میں کس قسم کی فلمی کہانی کا ٹرینڈ عروج پر ہے۔
دن رات کی انتھک محنت کے بعد اگر مطلوبہ نتیجہ نہ مل سکے تو فلم ساز دل برداشتہ ہوجاتا ہے۔ بولی وڈ میں اگر دیکھا جائے تو اس وقت ریلیز ہونے والی کم و بیش ہر فلم میں کہانی کا فقدان نظر آتا ہے۔ بہت ہی کم ایسی فلمیں بنائی جارہی ہیں جن میں کہانی یا اسکرپٹ کو اہمیت دی جارہی ہو۔ ورنہ تو صرف ایک دوسرے کی دیکھادیکھی فلمیں بنائی جارہی ہیں۔ بے تُکے سین، ناقابل فہم کامیڈی، بے ہودہ ڈانس فلموں کا حصہ ہیں اور گانوں کے بول بھی انتہائی عامیانہ لکھے جارہے ہیں۔
ایسی صورت حال میں اگر کوئی فلم ہٹ ہو جائے تو یہ صرف کسی کی خوش بختی کی وجہ سے ہوسکتا ہے فلم کی وجہ سے نہیں۔ حال ہی میں شاہ رخ خان کی ریلیز ہونے والی فلم ہیپی نیو ایئر، جس نے مقبولیت اور کام یابی کے گذشتہ تمام ریکارڈ توڑ دیے، کے بارے میں جیہ بچن کا کہنا ہے کہ اس فلم میں کہانی نام کی کوئی چیز نہیں اور یہ ایک احمقانہ فلم ہے۔ اس کے باوجود وہ ہٹ ہوگئی۔ لیکن 2014 میں ریلیز ہونے والی کئی ایسی فلمیں ہیں جنہیں سال کی خراب ترین یا بکواس ترین فلمیں کہا جارہا ہے، حالاںکہ ان تمام فلموں میں وہ تمام لوازمات تھے، جو آڈینس دیکھنا چاہتی ہے۔
ہم شکل:
ڈائریکٹر اور پروڈیوسر ساجدخان کی فلم ہم شکل 2014کی بکواس اور خراب ترین فلموں میں نمبر ون شمار کی گئی ہے۔ نہ صرف یہ بل کہ اس فلم میں کامکرنے والے تمام اسٹارز خاص طور سے بپاشا باسو، سیف علی خان اور ریتش دیش مکھ نے اسے اپنے کیریر کی سب سے بڑ ی غلطی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم شکل جیسی فلم کرنے کے بعد ان کے کیریر کو شدید دھچکا لگا ہے۔ اس فلم کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ فلم میں کہانی نام کی کوئی چیز شامل نہیں کی گئی تھی۔
نہ ہی فل میں کوئی تسلسل نظر آتا تھا۔ یہ فلم نہ صرف آڈینس اور ناقدین کے لیے درد سر کا باعث بنی بل کہ اس کی کاسٹ بھی پچھتانے لگی کہ اس فلم میں کیوں کام کیا۔ ساجد خان کو بھی ہر سطح پر اس فلم کے حوالے سے بری طرح سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ خاص طور سے سوشل میڈیا پر اس فلم کے لیے ساجد کو بہت برے اور تلخ ریمارکس سننے کو ملے۔ آخر میں اس فلم کے بارے میں صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ اس فلم کو وہ ہی شخص دیکھ سکتا ہے جو واقعی ہمت والا ہے۔
دی ایکسپوز:
فلم کی سب سے بڑی غلطی ہمیش ریشمیاں کا سپر ہیرو ہونا ہے۔ ایک پراسرار قتل کے گرد گھومنے والی اس فلم کی کہانی میں تھرل بھی ہے لیکن فلم کا اختتام انتہائی احمقانہ دکھایا گیا ہے۔ ہمیش اس کردار کے لیے انتہائی نامناسب انتخاب ثابت ہوئے۔ اس فلم کے ڈائیلاگ بھی بے سروپا اور بکواس تھے۔ فلم میں ہمیش کو سپر ہیرو کے طور پر دیکھنا دل گردے کا کام ہے، کیوں کہ شاید ان کو خود بھی اس بات کا احساس نہیں تھا کہ وہ اپنے اس کردار کے ساتھ انصاف نہیں کر پائیں گے۔ وہ بولی وڈ کے ٹاپ کلاس ہیروز سے بہت متاثر نظر آتے ہیں (شاید ان کے ذہن میں یہ خیال ہو گا کہ اگر وہ سپر ہیرو جیسا کردار کر سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں کرسکتا) بہرحال دی ایکسپوز دیکھنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے اور کچھ نہیں۔ فلم کی دیگر کاسٹ میں عرفان خان اور ہنی سنگھ بھی شامل ہیں۔
ایکشن جیکسن:
اجے دیوگن اور سوناکشی سنہا کی فلم ایکشن جیکسن دسمبر میں ریلیز ہوئی تھی، لیکن اس بار فلم کے حوالے سے یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ اپنی گذشتہ کام یاب فلموں کی طرح اس بار ڈائریکٹر پربھو دیوا کوئی کمال نہیں دکھا پائے۔ ان کی یہ فلم دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہ فلم شاید کسی بچے نے بنائی ہے۔ انتہائی گھسا پٹا پلاٹ اور عام سے کرداروں پر 1970کی دہائی میں بنائی جانے والی یہ فلم شاید ڈائریکٹر نے غلطی سے 2014 میں ریلیز کردی۔ اس فلم کی واحد خاص بات یہ تھی کہ پربھو دیوا نے اجے دیوگن سے بہت اچھا ڈانس کروایا۔ صرف یہی اس فلم کا پلس پوائنٹ ہے۔
بینگ بینگ:
سال کی سب سے بڑی ہٹ فلم بینگ بینگ جس میں رتھک روشن اور کترینہ کیف جیسے بولی وڈ کے ٹاپ کلاس اسٹارز نے کام کیا۔ اس فلم کی کام یابی نے ثابت کردیا کہ اب بے تکی فلمیں بھی صرف بڑے نام اور منہگی لوکیشن سے ہٹ ہوسکتی ہیں۔ فلم میں کہانی نام کی کوئی چیز نہیں اور اگر کچھ ہے تو اس سے صرف سر میں درد ہی ہوسکتا ہے اور کچھ نہیں۔ معیاری اور سلجھی ہوئی کہانی پر مبنی فلم دیکھنے والوں کے لیے اس فلم میں کچھ نہیں۔ بینگ بینگ ایک انگلش فلمknight and day کی کاپی ہے اور اس میں رتھک روشن کی پاورفل پرفارمینس کے دیکھنے کو کچھ بھی نہیں۔ اس کے باوجود یہ فلم باکس آفس پر کروڑوں کا بزنس کرچکی ہے اور کترینہ کے کریڈٹ میں ایک اور ہٹ فلم کا اضافہ کرچکی ہے۔
ریوالور رانی:
2014کی اس انوکھے نام والی فلم کو دیکھنے کے بعد خود کو شوٹ کرلینے کا دل چاہتا ہے۔ ایک انتہائی احمقانہ اور بے سروپا فلم جس میں نہ کہانیہے اور نہ ہی کہیں ڈائریکشن نظر آتی ہے۔ ریوالور رانی کا ٹائیٹل رول کنگنا رناوٹ نے کیا ہے اور اپنے گذشتہ کام کی نسبت کنگنا نے اس فلم میں صرف وقت ضائع کیا ہے۔
دعوت عشق:
اس فلم کی مثال اس طرح سے دی جاسکتی ہے کہ سامنے گرما گرم چکن بریانی ہو اور جب اسے کھانے لگیں تو اس میں نمک کی زیادتی نے منہ کڑوا کردیا۔ پریتی چوپڑہ اور ادیتہ رائے کپور کی اس فلم کی ابتدا ہی انتہائی برے طریقے سے ہوئی ہے۔ فلم کے اسکرپٹ میں کوئی جان نہیں اور فلم کے آغاز ہی سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ فلم بغیر کسی کہانی یا اسکرپٹ کے آگے بڑھ رہی ہے۔ فلم کا میوزک اور گانے متاثر کن ہیں، لیکن مجموعی طور پر دعوت عشق ایک غیرمعیاری اور غیرمتاثر کن فلم ہے۔
کری ایچر تھری ڈی:
بپاشا باسو اور پاکستانی اداکار عمران عباس کی اس فلم میں دیکھنے کے لائق کوئی چیز نہیں۔ یہ فلم بری طرح سے فلاپ ہوگئی۔
فلم کا سب سے پلس پوائنٹ اس کے ویژول ایفکیٹس ہیں۔ اس کے علاوہ پوری فلم میں کوئی ایسی بات نہیں جو ہال میں بیٹھے آڈینس کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائے رکھے۔ بپاشا کی اداکاری بھی یکسانیت کا شکار تھی کیوں کہ وہ پہلے بھی اس قسم کے کردار کرچکی ہیں۔
اس اس فلم میں ان کے پاس نیا کرنے کو کچھ نہیں تھا۔ دوسری طرف عمران عباس بھی اداکاری میں کم زور رہے۔ ان کے کام کو کسی نے بھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ یوں لگتا ہے کہ عمران انڈین فلم میں کام کرکے صرف اپنا شوق پورا کرنا چاہتے تھے۔
بوبی جاسوس:
وراسٹائل اداکارہ ودیا بالن کا شمار ان ہیروئنز میں ہوتا ہے جو تعداد کے بجائے معیار پر توجہ دیتی ہیں۔ اپنے اب تک کے کیریر میں انہوں نے کم و بیش تمام کام یاب فلمیں ہی دی ہیں۔ اس کے باوجود ودیا بوبی جاسوس جیسی فلم میں کام کرنے کو کس طرح تیار ہوگئیں؟ اس بات پر ان کے چاہنے والوں کو شدید حیرت ہوتی رہی۔ آڈینس صرف ودیا کے نام کی وجہ سے یہ فلم دیکھنے سنیما ہالز پہنچی، لیکن فلم دیکھ کر اور خاص طور سے اس کا سسپنس سے بھرپور احمقانہ قسم کا اختتام دیکھ کر فلم بینوں کا یہی دل چاہا ہو گا کہ وہ اپنے پیسے واپس لے لیں۔ ممکن ہے کہ فلم کی ریلیز رپورٹ کے بعد ودیا کو بھی اس بات کا افسوس ہوتا ہو کہ کاش اس نے اس فلم میں کام نہ کیا ہوتا۔
ون بائے ٹو:
جس فلم کا نام ہی بے تکا اور عجیب ہے وہ فلم کیسی ہوگی؟ اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ فلم اپنی ریلیز کے بعد بہت جلد سنیما سے اتر گئی۔ فلم کے مرکزی کردار ابھے دیول اور ان کی حقیقی گرل فرینڈ پریتی ڈیسائی نے کیے ہیں۔ فلم کے پروڈیوسر ابھے دیول ہیں، جنہوں نے شاید اپنے خوابوں اور خیالوں سے مزین کرکے اس فلم کو بنایا ہے۔
فلم کے ہاف ٹائم تک اس میں کہیں پر بھی اسکرین پلے اور پلاٹ نظر نہیں آتا۔ ڈائیلاگ بھی نہایت عامیانہ اور غیرمتاثر کن ہیں۔ یہ فلم کب آئی اور کب گئی، کسی کو پتا بھی نہیں چلا۔
کانچی:
سبھاش گھئی نے اپنی فلم کے ایک نام کانچی سے کانچی نام کی فلم بنا ڈالی اور اس کی کاسٹ میں نئے فن کاروں کو کاسٹ کیا گیا۔ فلم دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ سبھاش گھئی ستر اور اَسّی کی دہائی ہی میں فلمیں بنا رہے ہیں۔ اس فلم میں نہ تو کہانی نام کی کوئی چیز ہے اور نہ ہی فلم کا اسکرپٹ اتنا پاورفل ہے کہ وہ ہال میں بیٹھی آڈینس کی توجہ اپنی جانب کھینچ سکے۔
کانچی کی ریلیز سے پہلے اس کی بڑے بھرپور طریقے سے پبلسٹی کی گئی تھی، لیکن ریلیز ہونے کے بعد یہ فلم کب سنیماؤں سے اتر گئی اس کا پتا بھی نہیں چلا۔ فلم کے ڈائیلاگ ناظرین کو قہقہے لگانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ فلم کے ہیرو اور ہیروئن دونوں ہی نے انتہائی بوگس اداکاری کا مظاہرہ کیا ہے یہ فلم دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ اسے کسی نان پروفیشنل ہدایت کار نے بنایا ہے۔
ٹوٹل سیاپا:
پاکستانی اداکار علی ظفر بولی وڈ میں اپنی اچھی خاصی پہچان بنا چکے ہیں۔ ان کی فلم ٹوٹل سیاپا واقعی ایک سیاپا ثابت ہوئی ہے۔
فلم کی ہیروئن یمی گپتا ہیں، جن کی اداکاری میں کوئی جان نہیں۔ یہ فلم ایک انگلش مووی کا چربہ ہے اور اس میں کوئی ایسی خاص بات نہیں جو آڈینس کو یہ فلم دیکھنے پر مجبور کرسکے۔ فلم میں کہانی کے بجائے دوسری باتوں پر زور دیا گیا ہے۔ ڈائریکٹر کی کہیں بھی گرفت نظر نہیں آتی، ایسا لگتا ہے کہ فلم میں ہر کوئی اپنی مرضی سے کام کر رہا ہے۔ ٹوٹل سیاپا دیکھنا صرف وقت کا ضیاع ہے اور کچھ نہیں۔
سپر نانی:
ایک طویل عرصے کے بعد ریکھا کی کوئی فلم ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے حوالے سے لوگوں میں ریکھا کی اس کی کاسٹ میں موجودگی پر کافی جوش پایا جاتا تھا۔ فلم کی دیگر کاسٹ میں شرمن جوشی بھی تھے۔ اس فلم میں کوئی ایسی قابل ذکر بات نہیں کہ اس سپر نانی کو پیسے خرچ کر کے دیکھا جائے۔
حقیقت میں تو یہ فلم بغیر پیسوں کے بھی نہیں دیکھی جاسکتی۔ فلم میں ریکھا نے خود کو ضائع کیا ہے اور اس فلم کو دیکھنا وقت کا زیاں ہے۔ سپرنانی کاسب سے کم زور پہلو یہ ہے کہ یہ فلم مکمل طور پر بوریت سے بھرپور ہے۔ فلم میں احمقانہ قسم کے مناظر اور ڈائیلاگ کی بھر مار ہے ایسا لگتا ہے کہ ڈائریکٹر نے صرف ریکھا کو دکھا نے کے لیے یہ فلم بنائی ہے۔